بیٹھا تھا دوستوں میں پھر بھی جلا رہی تھی
مجھ پر یوں یاد اس کی کل حق جتا رہی تھی
خانہ خراب لب سے یوں ہی پھسل گیا تھا
اک روز مجھ سے ہو کر بے دید جا رہی تھی
ناراض اس نے ہو کر منہ پھیر کر کہا تھا
میں ظرف کو ترے بس یوں آزما رہی تھی
سینے میں دفن کی تھی ہاتھوں سے خود محبت
بے باک یاد اس کی مردے جگا رہی تھی
کیوں کر نہ ہوتا بت سے دم کا نکلنا آساں
جب یاد اس کی مجھ کو ہر پل ستا رہی تھی
سب رو رہے تھے میری میت کو دیکھ کر جب
دو چار آنسوں تو وہ بھی بہا رہی تھی
دل پر لگی گڑھی کے پھر گھر بھی کر گئی تھی
میرے ہی پیچھے اس کی میت بھی آ رہی تھی