کسی کے دل کا ہے مہمان کہیں میزبان دل
کسی کے دل کا سکون اور کہیں بے امان دل
کبھی صحرا کبھی دریا کبھی جنگل بیاباں ہے
کبھی راہی کبھی منزل کبھی ہے کاروان دل
سفر کے راستون کا خوف بھی دل کو ڈراتا ہے
کبھی خود راہنما بن جاتا ہے یہ مہربان دل
یہ جانتا ہے اک گہرا بھنور ہے اس سمندر میں
جانے پھر کیوں اس میں ڈوبنا چاہتا ہے نادان دل
عظمٰی نہ ٹوٹ جائے کہیں دل سنبھالنا
ہے زندگی کا باعث یہ بے زبان دل