بے تاب ہے رنگت کے لیے پیار کی خوشبو
کب سر کے قریب آئے گی تلوار کی خوشبو
مَطلع میں دَمک اٹھتا ہے اس ماتھے کا مطّلع
اشعار میں آ جاتی ہے رُخسار کی خوشبو
کہتی ہے کہ آنگن کی چنبیلی تھے کبھی ہم
کوٹھے پر تڑپتتی گل بازارکی خوشبو
درکار ہیں آرائشِ نکہت کے لیے رنگ
وہ نکہتِ گیسو ہیں کہ رخسار کی خوشبو
اب اگلے برس یہ در و دیوار نہ ہوں گے
اِک سَر کا لہو مانگے ہے دیوار کی خوشبو