تقدیر قسمت کے کھیل نرالے
کہاں لوٹ کر آتے ہیں جانے والے
کچھ دن سے بہت درد ہیں سینے میں
آنسو وہی بہاتے ہیں درد والے
میرا چارہ گر میرا ہمسفر جب بدل گیا
پھر کس سے ُامید رکھتے ہیں انا والے
خود کو خدا کا بندہ کہہ کر بھی نہیں سمجھا
دغا کہاں دیتے ہیں خدا والے
حیاء پر بیان سن کر میں زمین میں گڑ گئی
لیکن بے حیاء نکلے حیاء پر درس دینے والے
موت تو مقرر ہے پھر اے آدم ڈر کیسا ؟
میں خوش ہوئی کہ ہم بھی ہیں خدا سے ملنے والے