فطرتاً ہی بے خودی آئی ہے میرے ہوش میں سرمدی آواز ڈالی کس نے میرے گوش میں خواب گاہ اپنی تو تھی اس گوشئہ خاموش میں ہم کو تو بس نیند آئی موت کی آغوش میں جب مجھےکچھ ڈھونڈ کر پانے کا ہو جاتا ہے شوق لاپتہ ہوجاتا ہوں میں خاک کے خود پوش میں