اجاڑ موسم کو بارشوں سے غرض نہیں ہے
اداس لمحوں پر زندگی کا قرض نہیں ہے
بہت سے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے رخ بدلتے
سو تم بھی جاؤ، تمھارا بھی تو فرض نہیں ہے
بہت محبت ہے چشم تر کو تمھارے غم سے
یہ درد میری عقیدتیں ہیں، مرض نہیں ہے
تمہیں بلایا ہے جاں کدے میں مگر اے محرم
یہ ڈھرکنوں کی حکایتیں ہیں، عرض نہیں ہے
یہاں سے آگے وفا کا پنچھی ہی جائے سدرہ
یہ منتہی ہے، عداوتوں کی ارض نہیں ہے