میری الجھنوں کا سفر طویل نکلا
جتنا سلجھایا رضا اتنا قلیل نکلا
گھونٹ ڈالا حسرتوں کا گلا ہاتھ سے
مے اپنی چاہتوں کا خود خلیل نکلا
دل کو نچوڑا اسطرح سخن نے میرے
خون تو آیا مگر خالی قندیل نکلا
بے سروسامانی نے ان پہ کچھ تو اثر چھوڑا
ہاتھ ڈالا جیب مے جو کچھ آیا فی سبیل نکلا
میں جسکو سمجھتا بے سروسامانی کے سوا کچھ نہیں
آج وہ میری شہرت کی دلیل نکلا