وہ بے وفا ہے اسے بے وفا کہوں کیسے
برا ضرور ہے لیکن برا کہوں کیسے
جو کشتیوں کو ڈبوتا ہے لا کے ساحل پر
تمہی بتاؤ اسے ناخدا کہوں کیسے
یہ اور بات برے کو برا نہیں کہتا
برا برا ہے برے کو بھلا کہوں کیسے
وہ میری سانسوں میں دل میں نظر میں غزلوں میں
میں اپنے آپ سے اس کو جدا کہوں کیسے
جو تجھ سے کہنا ہے دنیا سے وہ چھپانا ہے
اگر غزل نہ کہوں تو بتا کہوں کیسے
ہوا کی شہہ پہ جلاتا ہے گھر غریبوں کے
نوازؔ ایسے دیے کو دیا کہوں کیسے