بے وفاؤں کے انتظار میں پڑے رہے
صدیوں پرانے پیار میں پڑے رہے
فرد نہ سچا کوئی ہم میں آیا
دل ہم میں ٗ ہم دلِ بیزار میں پڑے رہے
صبر و تحمل سے کام عمر بھر لیا
مر گئے تو سایۂ دیوار میں پڑے رہے
عہدِ وفا تھا رکاوٹِ ترکِ محبت
نہ پوچھو کہ کیوں ہم بےکار پڑے رہے
چُھوٹے نہ اُس کی فریبی محبت سے
کرتے ہی گئے ٗ گنہگار پڑے رہے
وہ کرشمے جفاؤں کے سرِ عام کرتا رہا
ہم انائے محبت میں وفادار پڑے رہے
لمحہ لمحہ میرے بے زبان عشق کے
قفسِ بدن میں گرفتار پڑے رہے