تا حال نہ پو چھو کہ کیا حال ہے
کہ تا حال ہر حال ہی بےحال ہے
تاحال نہ تو کوئی دین ہے ، نہ ہی کوئی اخلاق ہے
کہ تاحال بس بے جا افعال سرے عام ہے
تا حال ہر حال کچھ یوں مصروف ہے
کہ تا حال ہر حال مہز پریشان حال ہے
تا حال روپیہ پیسہ اس قدر نایاب ہے
کہ تا حال بے بسی میں ہر حال ہے
تا حال ہر سمت میں چھائی تاریکی ہے
کہ تاحال لاپتہ سی ہماری کاروائی ہے
تا حال آزادی کی مارچ ہے
کہ تاحال حیاء قیدی قرار ہے
تا حال تشدد اور قتل و غارت گری کی اسی بھرمار ہے
کہ تاحال جیسے ایسی میں سب بھلائی ہے
تاحال ہر زات کو نام کی یوں تالاش ہے
کہ تاحال گویا ہر نام ہی بدنام ہے
تا حال نہ پوچھو کہ کیا حال ہے
کہ تاحال ہر حال ہی بے حال ہے