تاروں کی محفل میں رہا مذکور اِک جلوہ تیرا
“کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچہ تیرا“
اے نازنیں، اے دل ربا، حسنِ ادا کا واسطہ
مژگاں اٹھا، کر چشم وا، دیکھیں ذرا مکھڑا تیرا
مرتا ہے جو تجھ پہ وہ جی اٹھے تیرے دیدار سے
قاتل ادا، دستِ شفا، یہ حسنِ بےپرواہ تیرا
جلوہ نہاں ہو گا کہاں چلمن سے شبِ تار کی
خورشید ہے، ماہتاب ہے، تنویر ہے چہرہ تیرا
عظمٰی نہ ہو مایوس کہ سنتا ہے وہ سبکی صدا
رنگ لائے گا کبھی یہ نالہ و گِریہ تیرا