تجھے زندگی بھر کھلایا زمیں نے
ہوا کیا جو پھر تجھ کو کھایا زمیں نے
ذرا دیکھ اپنا تو اعمال نامہ
ترا بوجھ کیسے اٹھایا زمیں نے
فلک کے غموں سے بری کر کے تجھ کو
تجھے گود میں ہے سلایا زمیں نے
ترے حق کا دے کے تجھے دانہ دانہ
امانت کا حق ہے نبھایا زمیں نے
تو تھا اس جہاں میں ٬ جہاں تھے محمدؐ
ترا مرتبہ کیا بنایا زمیں نے
یہ تخلیقِ آدم کا ہے کار خانہ
شرف کیا کواکب میں پایا زمیں نے
قیامت کے دن تک جو ہیں آنے والے
ہے ان سب کا راتب چھپایا زمیں نے
شب و روز و موسم بدلنے میں دیپک
نہ اک آن بھی چین پایا زمیں نے