تخیل کے فلک پر مسکرائے اک ستارہ بس
غزل کی سر زمیں کو ہے فقط اتنا اشارہ بس
خبر مجھ کو نہیں کیسے خراش آئی نہیں کوئی
بس اتنا یاد ہے گرتے ہوئے اُس کو پکارا بس
جو دل میں بس رہا ہے اور جس کے بس میں ہیں ہر پل
اُسی کے سامنے کچھ بھی نہیں چلتا ہمارا بس
زمانوں سے مسلسل ہی تھکن کے پانیوں میں ہُوں
نظر کی آرزو ہے اب سمندر کا کنارہ بس
وہِیں پر وقت کے پیروں کی نبضیں ہو گئیں ساکت
کہ جونہی دستِ وجداں نے کیا مجھ کو اشارہ بس
بجز میرے کسی کا نام تیرے ساتھ آجائے
کسی قیمت، کسی صورت نہیں مجھ کو گوارا بس
تری خوشبو نے مہکایا اُسی پل نقشِ عاشی کو
کہ جس پل کوزہ گر نے چاک سے اس کو اتارا بس