بڑی عجب سی کشمکش ہے اس ایک زندگی کی
بہت کچھ حاصل کرکے بھی کیوں ہے بے چینی سی
نہ کہیں سکون نہ ہے آرام نہ صبروتحمل کہیں پر بھی
ہر چہرے پر کیوں چھائی ہے اک عجب اداسی سی
کیا اسی لئیے ہی خالق نے اس جہاں میں ہم کو تھا بھیجا
چھوڑ کر اس کے کاموں کو ہمیں پڑی ہے صرف اپنی ہی
جس کو دیکھو لگتا یہی ہے بس بھاگ رہا ہے تیزی میں
رشتے ناطے چھوڑ کر پیچھے ریس لگی ہے سب ہی کی
کیا اسے ترقی کہتے ہیں کیا یہی ہے یاروں اسٹیٹس
تم جسے ترقی کہتے ہو ہے میری نظر میں پستی ہی
جہاں پیار محبت شرم و حیا باقی نہ رہے تو اے راھی
ہمیں ایسی ترقی کیا کرنی بس منظور ہے یہ پستی ہی