جب جگ کی کسی بھی بستی میں تذلیلِ عورت ہوتی ہے
اُس وقت میری آنکھیں چھلکتی ہیں، اور خُود پہ نَدامت ہوتی ہے
میں ابن آدم ہوں بیشک، پر ابن حوّا بھی تو ہوں
بن آدم و حوّا کے یارو، کب انسان کی خلقت ہوتی ہے؟
تقدیسِ نسواں ہے مُحکم، توہین بھلا کیوں رشتوں کی؟
ماں، بہن، بیٹی، بیوی بن کر، عورت ہی تو عظمت ہوتی ہے
ہے سب سے مُقدس ماں کا رُوپ، اور بہن بھی ماں کا ہے پرتو
بیوی کے روپ میں تو عورت، تکمیلِ شرافت ہوتی ہے
اے جہل کے مارے تنگ نظرو، کیوں فہم و خرد سے دُور ہو تم
عورت سے کیوں وحشت کھاتے ہو؟ یہ سراپا مُحبت ہوتی ہے
اُس بحر و بر کے خالق نے، انسانوں میں فرق رکھا ہے ضرور
یہ فرق ہے باعثِ شناخت محض، کیوں تم کو عداوت ہوتی ہے
ماں کی عظمت کے بارے میں کیا خوب ہے یہ فرمانِ نبی
ماں کے مُقدّس قدموں تلے، بچوں کی جنّت ہوتی ہے
بتلایا ہے ہادیء برحق نے، بیٹی سے محبت جتلا کر
بیٹی کب باعثِ ننگ و شرم، یہ لائقِ عزّت ہوتی ہے
پُوچھا تھا کسی نے پیغمبر سے، عورت کا کیوں کر ثواب بڑھے؟
فرمایا “جو گھر کے کام کرے، وہ محوِ عبادت ہوتی ہے“
اللہ نے بار کِفالت کا، رکھا ہے یوں مرد کے کاندھوں پر
خاتونِ خوش خصلت سے ہی گھر بھر کی زینت ہوتی ہے
آزادیء نسواں کا دھوکہ، عورت کے حق پر ڈاکہ ہے
کب جنسِ بازاری کی یارو، کُچھ قدر و قیمت ہوتی ہے؟
یہ اہل مغرب بتلائیں، گر عورت کے ہیں مساوی حقوق
کیوں اُن کی نگری میں جا جا، اس حق سے بغاوت ہوتی ہے؟
سرور ہے حقیقت کہ عورت، ہر روُپ میں خیر و برکت ہے
عورت کو جو بُرا بناتی ہے، وہ مرد کی نیّت ہوتی ہے
(شعر نمبر سات، آٹھ اور نو میں بالترتیب فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ہادیء برحق صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم پڑھا جائے)