رخصت ملی ہے جینے کی کردار کے بنا
کیا وقت ہے کہ رہنا ہے گفتار کے بنا
مضبوط کرنا تھا انھیں گرنے سے پیشتر
بے پردگی تو ہوتی ہے دیوار کے بنا
پیچھے سے وار مرد نہیں کرتے ہیں کبھی
ہر گز نہیں لڑوں گا میں للکار کے بنا
ہربات میں لڑائی ہے ہر کام میں فساد
حکم خدا تو مانیے تکرار کے بنا
زنجیر میں جکڑ کے بھی شاید وہ خوش نہیں
چلنے کا حکم دیتے ہیں جھنکار کے بنا
جنبش لبوں کو دی تھی کہ آنے لگے پیام
سر کے بنا رہیں گے یا پرچار کے بنا
اک دوسرے کو بڑھ کے گلے سے لگائیے
قومیں نہیں پنپتی ہیں ایثار کے بنا
اپنے تئیں تو آج ہیں منصور سب کے سب
حق کے بغیر کچھ ، تو ہیں کچھ دار کے بنا
تاصف فصیل شہر پہ یہ کیوں لکھا گیا
اب نکلے گھر سے کوئی نہ ہتھیار کے بنا