تم لاکھ انکار کرتے رہو سچائی عیاں ہو جاتی ہے
آنکھوں کے پیمانوں سے ہر بات بیاں ہو جاتی ہے
چپ رہ کر تم نے سمجھا تھا شاید ایسا ممکن ہو
لب سی لینے سے اکثر سچائی نہاں ہو جاتی ہے
کیسی حقیقت کیا افسانہ کیا اپنا کیا بیگانہ ہے
وقت گزر جائے تو پھر ہر چیز گماں ہو جاتی ہے
روشن تارا لگتی ہے جو دور سے دیکھنے والوں کو
وہ شمع بھی جل جل کر اک روز دھواں ہو جاتی ہے
دل کے ارمانوں کو عظمٰی دل سے باہر آ نے دو
دل کی حسرت دب دب کر آہ و فغاں ہو جاتی ہے