تم نے دیکھا کدھر گئے تارے؟
کس کی آواز پر گئے تارے؟
یہ کہیں شہر آرزو تو نہیں
چلتے چلتے ٹھہر گئے تارے
کب سے ہے آنکھ گود پھیلائے
جھیل میں کیوں اتر گئے تارے
دور تک نقشے پائے نور نہیں
جانے کس راہ گزر گئے تارے
اُف یہ سارے اندھیرے سنا ٹے
جانے کس کے نگر گئے تارے
آج آثار ہیں صبح سے پہلے
وادیوں میں اُتر گئے تارے
سہمے سہمے ، بجھے بجھے مغموم
سر جھکا کر گزر گئے تارے
بدر کچھ وہاں کی بھی خبر ہے تمہیں
آنچلوں پر بکھر گئے تارے