تم کو کیا خبر جاناں
ہجر کی کہانیاں کسطرح سے چلتی ہیں
ہم تمہیں بتاتے ہیں
زندگی کے ساحل پر
دل کا کورا کاغذ ہے
جس میں تم سے کہنے کی وہ تمام باتیں ہیں
جنکو پڑھتے ہی جاناں
تم نے لوٹ آنا ہے
لیکن میرے چار سو بے پناہ اندھیرا ہے
کالی لمبی راتوں میں بجلیاں چمکتی ہیں
تیز دھار آندھی ہے
مایوسی کے بادل جب آندھیوں سے ٹکرا کر
ٹوٹ کے برستے ہیں
کہکشاں لرزتے ہیں
سارے لفظ گیلے ہیں
اور نظم پانی کی لہروں میں یوں چلتی ہے
جیسے موت کہ منہ میں زندگی مچلتی ہے
جیسے وحشت جاں سے سانس رک کے چلتی ہے
اب تمہی بتاؤ نا
کوئی کیسے سمجھے گا
پانی پانی لفظوں کو
گیلی گیلی سوچوں کو
اور کون جانے گا
ہجر کی کہانی میں اس چھپی اذیت کو
درد کی پناہوں میں اس دبی محبت کو
تم بھی کیسے جانو گے
میرے گیلے لفظوں کو
ہجر کی کہانیاں اسطرح تو چلتی ہیں