یوں غموں کا حساب ہوجائے زخم کھل کر گلاب ہو جائے معتبر وہ شباب ہو جائے جس کے سر پر نقاب ہو جائے آب کو آب جگ کہے سارا تم کہو تو شراب ہو جائے کام ایسے نہ تم کرو لوگوں کہ زمیں پر عزاب ہو جائے دے خدا وہ مقام انور کو ذرّے سے آفتاب ہو جائے