کالر سے چرا کر لگایا تھا جو خواب میں
تمہاری خوشبو بس گئی ہے اس گلاب میں
گرچہ آغاز کلام خود سے نہ کیجئیے حضور
کچھ تو ارشاد ہو میری بات کے جواب میں
تم وہی سراپا ہو کہ جسکی جستجو میں ہم
بیدار سفر میں رہے سفر میں رہے خواب میں
تمہیں کھو کر تو ہم اپنے ہوش تک گنوا بیٹھے
عرصہ ہجر و وصال کیونکر رکھیں حساب میں
ساقی کے ہاتھوں میں جام اور میرے واسطے
آج تو پی ہی لیں گے چاہے زہر ہو شراب میں
پیکر جمال کی تعریف اس سے سوا کیا ہوگی
ماہ و انجم میں اور اسکا عکس آفتاب میں
نورانی نظروں کو دیکھ کر اندازہ کیجئیے
چاندنی کا عکس ہے تاروں کی تاب میں
شوق دیدار ہے تو ذرا کے سامنے آؤ
ممکن نہین وصال نظر ہو نقاب میں
عظمٰی نے بہت بحر و بر کی خاک چھان لی
اب تیری جستجو کریں گے ہم سراب میں