تمہارے خط کا متن دیر تک ہم سوچتے رہے
شام سے رات اور پھر سحر تک ہم سوچتے رہے
یہ نامہ میرے نام ہے یا کسی اور کہ لئے
روپہلی دھوپ سے دھندلی کہر تک ہم سوچتے رہے
جو اپنے ساتھ دو قدم ملا کر بھی نہیں چلا
وہ اپنا ہمسفر۔؟ حد سفر تک ہم سوچتے رہے
ہر ایک پہلو کو پہلو بدل کر سوچتے رہے
ذرا سی بات کو حد نظر تک سوچتے رہے
جو اپنے دل سے پوچھا عظمٰی حیرت میں غرق پایا
کہ اپنی سوچ کے حتمی اثر تک ہم سوچتے رہے