مجھے کیفِ سحر بھی ہے مجھے ہے شام کی مستی
زبان و دل پہ ہے چھانے لگی الہام کی مستی
نگاہوں کو نگاہوں سے ملا کر دیکھ لیتے ہیں
کہاں جانِ جگر پہنچی دلِ نا کام کی مستی
اعجازِ بے خودی ہے یہ کہ حسنِ بندگی ہے یہ
زبانِ جعفری پہ ہے تمہارے نام کی مستی