تمہیں اظہار کی جرات نہیں ہے
مجھے دکھ ہے مگر حیرت نہیں ہے
لہو دیکر گزارہ ہو رہا ہے
یہاں اتنی بھی اب غربت نہیں ہے
مقابل آئنہ رکھا ہوا ہے
مکرنے کی کوئی صورت نہیں ہے
نہ بدلے گی میری سادہ مزاجی
یہ فطرت ہے کوئی عادت نہیں ہے
زمیں ہو کر فلک کو چھو لیا ہے
ابھی دل میں کوئی حسرت نہیں ہے
بدلنے کا ارادہ کر لیا ہے
بدلنے کو مگر مہلت نہیں ہے
تجھے سوچا فقط سوچا کرینگے
تجھے ملنے کی اب صورت نہیں ہے
ادھورے رہ گئے سب کا انجم
کسی کی یاد سے فرصت نہیں ہے