پربتوں کے بیچ میں
بل کھاتی سڑکوں پر
بادلوں کا وہ مخملیں لمس
گزرتی گاڑیوں کا شور شرابا
وہ سنسناتی یخ ٹھنڈی ہوا
دُھوئیں کی اوڑھ ہٹاتی ہوئی وادیاں
اُن وادیوں میں بنتی مختصر سی ندیاں
خواہشوں کے پل بناتی ہوئی
جوت زندگی کی جگاتی ہوئی
شدت کے موسم میں جلتی زمیں
رنگت سنہری ٹمٹماتی ہوئی
فضا بھی لگتی ہے نکھری سی نکھری۔۔
ابرِ کرم یوں برستا رہا
مگر میرا دل ترستا رہا۔
ترچھی نظر نہ نگاہیں کوئی
نہ منتظر ہیں میری بانہیں کوئی۔۔
میں صدیوں میں صدیوں کا پیاسا ہُوا
اس دُنیا کی نگری میں مارا ہُوا
بھری اس محفل میں میں تنہا ہُوا۔۔
مُوسم کی دیکھو ہے کیسی یہ مستی
مگر نہ رہی اپنی کوئی ہستی۔۔
نہ پربت، نہ بادل، نہ ٹھنڈی ہوا۔۔
ہمیں نہ جانے کبھی بھی یہ دُنیا
آئے ہم تنہا، جائیں گے تنہا۔۔
×××××××××