تو ساتھ ہے مگر کہیں تیرا پتا نہیں
شاخوں پہ دور تک کوئی پتا ہرا نہیں
خاموشیاں بھری ہیں فضاؤں میں ان دنوں
ہم نے بھی موسموں سے ادھر کچھ کہا نہیں
تو نے زباں نہ کھولی سخن میں نے چن لیے
تو نے وہ پڑھ لیا جسے میں نے لکھا نہیں
یہ کون سی جگہ ہے یہ بستی ہے کون سی
کوئی بھی اس جہان میں تیرے سوا نہیں
چلیے بہت قریب سے سب دیکھنا ہوا
اپنے گماں سے ہٹ کے کہیں کچھ ہوا نہیں
چھوڑا ہے جانے کس نے مجھے بال و پر کے ساتھ
یہ کن بلندیوں پہ جہاں پر ہوا نہیں
رنگ طلب ہے کون سی منزل میں کیا کہیں
آنکھوں میں مدعا نہیں لب پر صدا نہیں
پیچھے ترے اے راحت جان کچھ نہ پوچھیو
کیا کیا ہوا نہیں یہاں کیا کچھ ہوا نہیں