جن سے تھی ہم کو توقع، کام آئیں گے ہمیں
مشکلوں میں انہی لوگوں نے لیا منہ پھیر ہے
ہم نے سمجھا ساتھ دیں گےساتھ جو ہیں چل رہے
آدھے رستے میں جو پہنچے، انہوں نے لیا گھیر ہے
ہم تھے سمجھے پاس ہے جو سونا ہی سونا ہے وہ
جوہری نے دیکھا ،بولا! مٹی کا یہ ڈھیر ہے
پہنچے جنگل، دیکھا کھاتے بیروں کو اک شیر کو
ہم نے سوچا نہ کبھی تھا شیر کھاتا بیر ہے
تم توقع رکھو نہ ،مشؔہود دنیا فانی ہے
ہاں مگر یہ سانس جو ہے، نعمتِ لاثانی ہے