تِیرگی میں روشنی کا استعارہ صرف تُم
سوچ راتوں میں جو چمکے وہ ستارہ صرف تُم
رقص کرتا ہے نگاہوں میں وہ منظر ہر گھڑی
تھام کر ہاتھوں کو کہنا بس تمہارا"صرف تُم"۔
غیر ممکن کو بھی ممکن کر دکھاتے ہو تُمہی
ہست کرتے ہو عدم سے آشکارا صرف تُم
کِھل چکے ہو تُم تخیل کے سمندر کے گلاب
حرف جو مہکائے وہ خوشبو کا دھارا صرف تُم
وا نگاہی میں جو دنیا کو نظر آئے نہ وہ
چشم بستہ بھی سمجھتے ہو اشارہ صرف تُم
مدتوں سے بہہ رہی تھی مثلِ موجِ مُضطرب
جذب جس میں ہو گئی میں وہ کنارہ صرف تُم
وقت کی آندھی مجھے عاشی گراتی کسطرح
جانتی تھی وہ کہ عاشی کا سہارا صرف تُم