میں تپتی دوپہر میں
تنہا کھڑی تھی
بن کے شام گلابی تم
مجھ پر چھاگئے جو
پت جھڑ کے موسم میں
بہار آگئی یکدم
سارے منظر حسیں لگنے لگے
معطر ہوگئی فضا ہر سو
زمین کو بھول کر میں
ابر کے سنگ سنگ
ہوا کے دوش پر
اڑنے لگی پھر
سیر آسماں کی کرنے لگی میں
چاند کو کرلیا سر
گماں ہونے لگا
ستارے توڑ لوں تھوڑے
جنم خواہش
لینے لگی دل میں
قریب آفتاب کے
پہنچ گئی جو
تپش آفتاب کی
جھلسانے لگی مجھکو
زمیں پر اترنا پڑا پھر
حقیقت کی دنیا میں
قدم رکھنا پڑا پھر
گلابی شام گزر چکی تھی
خزاں میرے گرد
بکھری پڑی تھی
منظر بہار کے
دھندلے دھندلے
ابر بن کے آنکھوں سے
برس رہے تھے
میں تپتی دوپہر میں
کھڑی تنہا
سسک رہی تھی
شبنم فردوس