رہے قریب ، مرے رازداں نہ بن پائے
تھی دوستی تو بہت مہرباں نہ بن پائے
اجالے جن کو اندھیروں میں میں نے بخشے ہیں
مرے خلوص کے وہ قدر داں نہ بن پائے
کہے تو کس کو کہے زندگی میں وہ اپنا
کہ دوست جس کا کبھی آسماں نہ بن پائے
میں نام آپ کا لینے سے بھی گریزاں ہوں
کہ ایسی ویسی کوئی داستاں نہ بن پائے
اسی لیے تو ہواؤں کا زور ہے طائر !
کسی شجر پہ ترا آشیاں نہ بن پائے
غریب کا یہ مقدر ہے یا نظام کہن ؟
تمام عمر کمائے مکاں نہ بن پائے
خیال رکھنا جو دیکھو نشان سجدوں کے
مری جبین کبھی “ آستاں “ نہ بن پائے
ہر ایک شہر میں دہشت کا راج ہونے لگے
تو کیا عجب کہ سخن کا سماں نہ بن پائے
یہود شر کو پھیلاتے رہیں گے دنیا میں
وہ چاہتے ہیں یہ سکھ کا جہاں نہ بن پائے
سبھی عزیزوں نے مجھ کو دیا ہے پیار بہت
بس اک کمی ہے کبھی بھی وہ ماں نہ بن پائے
کہے ہیں شعر بہت دل کا حال کہنے کو
مگر وہ شعر رہے اور زباں نہ بن پائے
ہے کشمکش یہ عجب ان کے سامنے زاہد
“ نہ “ کہہ سکوں نہ انھیں اور “ ہاں “ نہ بن پائے