تیرا شہر بھی کوئی عجیب لگتا ہے
نہ کوئی عدو نہ کوئی رقیب لگتا ہے
حدود ذات میں داخل ہو کر دئکھ
کوئی عدو تو کوئی حبیب لگتا ہے
اب تو نام محبت کے الزام آیا ہے
میر شہر میں رسوا کوئی غریب لگتا ہے
دل کے رشتے بڑے عجیب ہوتے ہیں
دور رہ کربھی کوئی قریب لگتا ہے
شعر و غزل، نظم و نثر کہتے رہتے ہو
سخن آرائی تیرا کوئی نصیب لگتا ہے
جاوید تیری سخن وری میں کرب نمایاں ہے
تو کوئی شاعر، کوئی ادیب لگتا ہے