بچھڑ کے ہم سے بکھر گیا ہے تو
زندگی آواز دے کدھر گیا تو
تیرا وعدہ تھا ڈھلے شام لوٹ آؤں گا
خشک آنکھوں میں سیلاب بھر گیا ہے تو
تو مسافر تھا میری کشتی کا دور تک جاتا
بیچ دریا میری جاں کیوں اُتر گیا ہے تو
بچھڑ کر تجھ سے میری زیست کے تارے ٹوٹے
میرے بخت پر سیاہ رنگ بھر گیا ہے تو
ایک لمحے کو سہی آکر ہی میری صورت دیکھو
سوز غم میں کیا جاں سے گزر گیا ہے تو