اب مری آنکھ نم رہے نہ رہے
تیری فرقت کا گم رہے نہ رہے
اب مجھے کچھ غرض نہیں پیارے
میرے سینے میں دم رہے نہ رہے
مر تو جانا ہے میں نے غربت میں
میرے پیالے میں سم رہے نہ رہے
ڈور الجھی ہے سانس و الفت کی
زیست میں زیر و بم رہے نہ رہے
مر گئے ہیں تمام تشنہ دہہن
آج آنکھوں کا یم رہے نہ رہے
تیری حسرت میں قید ہیں وشمہ
اب کوئی خوف و رم رہے نہ رہے