تیری نظروں سے ہو کے میرے جہاں پر ختم ہوئی
کہاں سے بات چلی تھی کہاں جا کر ختم ہوئی
انوکھی داستاں ہے یہ شروع انجام سے ہوئی
جہاں آغاز ہونا تھا وہاں جا کر ختم ہوئی
جواں ہمت رہی جب تک نشاں منزل کا نہ پایا
بہت نزدیک منزل کو مگر پا کر ختم ہوئی
زہر پیتے رہے لیکن اجل کا منہ نہیں دیکھا
مَلا تقدیر سے غم، زندگی کھا کر ختم ہوئی
جِسے حاصل گردانا ہے وہی نہ پا سکے عظمٰٰی
جو لسحاصل تھا زیسے میں وہی پا کر ختم ہوئے