تیری یادوں سے پیار کرتے میں تھک گیا ہوں
ہجر میں روز مرتے مرتے میں تھک گیا ہوں
جان جاں اب تو کوئ چارہ کرو ملن کا
سسکیاں اور آہیں بھرتے میں تھک گیا ہوں
اب نہیں ہوتا بن تمہارے گزارہ میرا
ہجر کی آگ میں اترتے میں تھک گیا ہوں
تو ہی ترسا رہا ہے مجھ کو جو کہتا تھا کل
آ بھی جاؤ صنم نکھرتے میں تھک گیا ہوں
کیسے بتلاؤں چھوڑ کر مجھ کو چل دیا تو
لوگوں کے سامنے مکرتے میں تھک گیا ہوں
مجھ سے اب اور غم نہ تیرا چھپایا جاۓ
جان جاں ضبط کرتے کرتے میں تھک گیا ہوں
طعنے مجھ کو زمانے والوں کے کھا گۓ ہیں
ٹوٹ کر جان جاں بکھرتے میں تھک گیا ہوں
مجھ کو کہنے پہ دکھ بھی ہوتا ہے جان جاں پر
اب تجھے پیار کرتے کرتے میں تھک گیا ہوں
تھک نہ پاۓ ہیں مجھ کو باقرؔ دبانے والے
زخم سہہ سہہ کے اب سنورتے میں تھک گیا ہوں