کچھ دوستوں کو بتایا ہے افکار کا عالم
کچھ نے جاننا چاہا تیرے انکار کا عالم
میں نے کہہ دیا حقیقت کا ترانہ
تم کیسے ہو؟دل پھینک عاشق آوارہ
کچھ بولیں سب اچھا ہوا
وہ تیری چاہ کے قابل کب تھا
تیری شرکت کے حامل کب تھا
کچھ بولیں کسی کی خواب کی مانند اُسے بھُلا دے
دل کے کونے میں کہیں، ہر بات چھپا دے
پھر روح کو اپنی نئی سوچ میں لگا دے
سُنو میری جان یہ ہو ممکن کیسے؟
بہت اُداس ہے میرے گل و گلزار کا عالم