کیا ہوا
اگر تیرا دیدار نہیں
نظر پر یہ حُسن گوار نہیں
تیری یادیں تیرا خیال رہہ گیا ہے بس
مجھ کو اب تیرا انتظار نہیں
بھلا دوں تجھ کو یہ ہے ناممکن
کیونکہ یہ میرے بس کی بات نہیں
تیرے خطوں کو جلا تو دیتا
مگر میں تجھ سا سمجدار نہیں
بدنصبی ہے تیرا نہ ملنا
اور کچھ تو بھی وفادار نہیں
تجھ سے نفرت سی ہو گیی بے شک
کیسے کہ دوں کے تجھ سے پیار نہیں
پھر بھی زندہ ہیں ہم نہ جانے کیوں
ذندگی سے تو اب کوئ امید نہیں
دور اتنا ہو گیا ہوں خود سے میں
خود مجھے اپنی خبر ملتی نہیں
سوچتا رہتا ہوں میں صدیوں کی بات
زندگی سے پر نظر ملتی نہیں