یہ حادثہ ہے کہ میں ہوں ترا وصال نہیں
مگر اے دوست ابھی زندگی محال نہیں
پکارتی ہیں مجھے تلخیاں زمانے کی
یہ سچ ہے دور فغاں میں ترا خیال نہیں
ترے سلوک نے گستاخ کر دیا ہے مجھے
وگرنہ میری طبیعت میں اشتعال نہیں
ترے لیے تو ہیں آنسو بھی پونچھنا مشکل
غریب شہر میسر تجھے رومال نہیں
کیے تھے وقت کے سلطاں نے ہم پہ جتنے ستم
جہاں میں ایسی کہیں بھی کوئی مثال نہیں
ہمیں ہو فرصت دنیا کہاں یہ ممکن ہے
وہ الفتوں کا زمانہ وہ ماہ سال نہیں
انھیں تو روٹی کمانے سے ہی نہیں فرصت
غریب لوگوں کے بچوں کا کوئی حال نہیں
کیا اس کے چہرے کو دیکھا نہیں کبھی زاہد
وہ مستحق ہے لبوں پر مگر سوال نہیں