تیرے عشق کے سمندر میں غوطہ لگاؤں گا
بڑے انمول موتی تیری معرفت کے میں پاؤں گا
تیری یاد کو دل میں اس طرح بساوں گا
پھر کسی اور کو اپنے دل میں نہ پاؤں گا
تیری محبت میں پھروں گا کبھی ادھر کبھی اُدھر
تیری یاد میں دیوانہ میں بھی کہلاؤں گا
تیرے گھر کے چکر دن رات لگاتا چلا جاؤں گا
عرفات کے میدان میں ملاقات کر کے آؤں گا
جاؤں گا مزدلفہ تیرا مہمان میں کہلاؤں گا
تیری مہمانی کا بھرپور لطف بھی اٹھاؤں گا
تیرے دوست کو دوست دشمن کو دشمن بناؤں گا
دشمن کو پتھر مار کر محبت کا اعلان کرواوں گا
منڈوا کے بال اس عہد کو پھر دھراوں گا
تیرے رستے میں اک دن گردن کٹواوں گا