تیرے لیے یہ دل کبھی پتھر نہیں ہوا
تیری طلب رہی تُو ہمسفر نہیں ہوا
ترے انتظار میں کئی برسوں گزر گئے
تری دید کا اک پل بھی میسر نہیں ہوا
تم جیسے کی تلاش میں پھرتی رہی برسوں
ترے سوا کوئی نظروں کا محور نہیں ہوا
جسےدیکھ کےتھم جاتی ہیں وقت کی نبضیں
دنیا میں کوئی تجھ سا وہ گہر نہیں ہوا
تخلیق ہے آدم کی محبت کی خاک سے
چاہت نہ ہو دل میں ایسا بشر نہیں ہوا
جو کھیل ہی میں ہار دے جان کی بازی
وہ کبھی قسمت کا سکندر نہیں ہوا
غیروں کےقریں دیکھ کےتمکو,ہنسوں کیسے
اتنا بڑا ابھی میرا جگر نہیں ہوا
محبت کی مسافت کو سمجھےگابھلاکیا
جو راہِ محبت میں مسافر نہیں ہوا
وہ دل بھی زمانے میں کسی کام کا نہیں
وہ دل جو محبت کا سمندر نہیں ہوا
واقف ہو حالِ دل سے اور بات نہ کرے
الفت میں کوئی اتنا بھی پتھر نہیں ہوا
پوچھے گا بتا دوں گی میں ان کو حالِ دل
یادوں کا سلسلہ تو مختصر نہیں ہوا