تیری گلی میں ہم جا جا کر روئے
تیری یادوں کو گلے سے لگا لگا کر روئے
کبھی خود سے چھیڑ لیا تیرے بچھڑنے کا قصہ
کبھی داستان جدائی دوستوں کو سنا سنا کر روئے
تو جو کیا کرتا تھا خوش رہنے کی باتیں
پیارے ھم یہی سوچ کے مسکرا مسکرا کر روئے
مجھے تو غم تھا ہی مگر میرے اہل شہر بھی
تیرے ہجر کے غم میں آ آ کر روئے
باتوں باتوں میں جو کبھی نکل آئی تیری بات
دامن نگاہ میں آنسوؤں کو چھپا چھپا کر روئے
امتیاز اگر وہ سنگدل بھی سن لے یہ غزل درناک
اپنی بے وفائی پہ وہ ظالم پچھتا پچھتا کر روئے