سوچا بھی ہے اے مرد مجاھد کبھی تو نے
وفا کی ہے وطن سے فولاد کی شمشیر کو لیۓ
شمشیر : جوہر والی تلوار
یہ وقت ایاں ہے کسی صودے بازی سے خالی
دیکھتی ہے ملت تجہے بے لوث خدمتگار
زمانا بدل گیا نہیں بدلا ہے وقت کبھی
مومن کے ہاتھوں میں ہے اب قلم وَ تيگ
تيگ : بندوک
جو جنگ نہیں جیت سکھا کل کا فرنگی
کیسی چھوڑ دیا تنہا وَ بی آسرا افراد کو
اُمیندوں کی شمع اب بہ روشن ہے اس گلستاں میں
چاہے لاکھہ گزر جاٸیں تیز وَ تر طوفان