جان سے پیاری تھی زندگی چھوڑ دی
خوش رہے زیست بھر دشمنی چھوڑ دی
تھا مرا پر ملا ہی نہیں وہ مجھے
جس کی خاطر میں نے نوکری چھوڑ دی
رات دن زور آتا ہے جو خواب میں
اس کی خاطر حسیں چھوکری چھوڑ دی
کرنا دیدار تھا اس لیے چپ رہا
تھا اندھیرا فقط روشنی چھوڑ دی
ساتھ میرے گلہ اس کا بنتا نہیں
آئی جب پیار میں تھی کمی چھوڑ دی
میں محبت سے انکاری ہی کب ہوا
یونہی بس میں نے دل لگی چھوڑ دی
لاکھ سمجھایا شہزاد ضد چھوڑ دو
جب نہ مانا تو پھر دوستی چھوڑ دی