کیا میں اتنا کائر ہوں
جانو تو کہو کیا میں اتنا کائر ہوں
کہ کوئی میرا نام بھی پوچھے تو میں ڈر جاؤں
دروازہ کی دستک سے بھی سہم جاؤں
کیا میں اتنا کائر ہوں
پھول بھی توڑوں تو سوچوں کہ ٹوٹ جاؤں
پت جھڑ میں پتوں کی طرح بکھر جاؤں
کیا میں اتنا کائر ہوں
میں اندھیری رات میں سورج کی آرزو چاہوں
اور اجالے دن میں تاروں کو ڈھونڈوں
کہ شاید اس بھنور میں اکیلا نہ رہ جاؤں
کیا میں اتنا کائر ہوں
دیکھوں آسماں کو تو سوچوں کہ یہ بلندی میری نہیں ہے
اور زمیں میں اپنا ہی آئنہ دیکھوں
کہ محالہ وسعتوں میں نہ کھو جاؤں
کیا میں اتنا کائر ہوں