سر پہ دُشنام کی، ہر لحظہ جب تلوار گرے
کیوں نہ عاشق پھر تیرا بر سرِ بازار گرے؟
عشق کی راہ یہ دیوانوں کو خوش آتی ہے
ورنہ ہر گام پہ کتنے یہاں ہُشیار گرے
اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے کی خواہش ہے شدید
گو کہ حالات کے ہاتھوں ہم کئی بار گرے
مُفلسی نے ہمیں اس طرح کیا ہے رُسوا
جنسِ بازار کی جیسے کبھی دستار گرے
ساتھ دینا ہی گوارہ نہ تھا جن لوگوں کو
جنگ کے دوران بہانے سے وہ سالار گرے
سہمے رہتے ہین ہر فرعون کے آگے ایسے
جیسے سجدے میں کوئی عاصی، گناہگار گرے
قلب مضطر ہے کسی دید کی خاطر ورنہ
ہم سا خود سر بھلا کیونکر سوئے دربار گرے؟
چشمِ پُر نم سے اِک اشک نہ چھلکا ہے کبھی
گرچہ اِس قلب پہ آنسو ہیں لگاتار گرے
اسی اُمید پہ محنت کا چلن رکھتا ہوں
جانے کب تک میری غربت کی یہ دیوار گرے
اپنے اجداد کی میراث ہے بیباک زباں
گو کہ سرور سے زمانے میں کئی بار گرے