جانے کس بات کی جلدی ہے
روح بےتاب سی رہتی ہے
تل تل کر جینا پڑتا ہے
زیست عذاب سی رہتی ہے
کیسی صورت آنکھوں میں
خواب خواب سی رہتی ہے
ہر صحرا دیکھ چکا ہوں
عمر گرداب سی رہتی ہے
دل میں کوئی آسیب سا ہے
پری جناب سی رہتی ہے
کچے گھڑوں سی خواہش اپنی
کوشش جناب سی رہتی ہے
مایوسی میں اُمید کی آس
ہم کو سراب سی رہتی ہے
عجب نظام کا کل پرزہ ہوں
مشین خراب سی رہتی ہے
میری آصف سے شناسائی
سوال جواب سی رہتی ہے