غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
دربارِ شہنشہی سے خوشتر
مردانِ خدا کا آستانہ
لیکن یہ دورِ ساحری ہے
انداز ہیں سب کے جادوانہ
سر چشمۂ زندگی ہوا خشک
باقی ہے کہاں مئے شبانہ
خالی ان سے ہوا دبستان
تھی جن کی نگاہ تازیانہ
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
ہے اس کا مذاق عارفانہ
جوہر میں ہو لا الہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ
شاخِ گل پر چہک و لیکن
کر اپنی خودی میں آشیانہ
وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ
دہقان اگر نہ ہو تن آساں
ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ
’’غافل منشیں نہ وقت بازی ست
وقت ہنر است و کار سازی ست