سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم
رہ جاتی ہے زندگی میں خامی
نخچیر اگر ہو زیرک و چست
آتی نہیں کام کہنہ دامی
ہے آب حیات اسی جہاں میں
شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی
غیرت ہے طریقت حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی غلامی
اے جان پدر نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرو کی غلامی
نایاب نہیں متاعِ گفتار
صد انوری و ہزار جامی
ہے میری بساط کیا جہاں میں؟
بس ایک فغانِ زیر بامی
اک صدقِ مقال ہے کہ جس سے
میں چشم جہاں میں ہوں گرامی
اللہ کی دین ہے‘ جسے دے
میراث نہیں بلند نامی
اپنے نور نظر سے کیا خوب
فرماتے ہیں حضرت نظامی
’’جائے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندیِ من نداردت سود