جاگتے جاگتے رات ڈھل جائے گی
زندگی ایک دن رخ بدل جائے گی
پیار کے چند لمحوں میں کیا تھی خبر
بات سوچوں سے آگے نکل جائے گی
ہے غریبوں کی بچی نہ گڑیاں دیکھا
نہ سمجھ ہے بیچاری مچل جائے گی
چند دن کو ہے خوابوں کی دنیا جواں
برف ہے خود بہ خود پگھل جائے گی
میرے ایسے وسیلے ہے چاہوں اگر
موت بھی آنا چاہے تو ٹل جائے گی
سادہ پانی کا ایک جام دے دے کوئی
بھوک کچھ دیر کو تو سنبھل جائے گی
ہر طرف عشق کی آگ لگنے لگی
ماہ رخ تو سنھبل ورنہ جل جائے گی