جب ایک ہیں ہم تو پھر فاصلے کیوں ہیں
منزل ہے ایک جدا پھر راستے کیوں ہیں
نہیں مطلوب تھا گر میرے سنگ چلنا
اک مدت سے پھر یہ واسطے کیوں ہیں
ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں
بھلا زمانے میں پھر یہ آئینے کیوں ہیں
جب خوابوں کی تعبیروں کو پا نہیں سکتے
توہم یہ سپنے پھر دیکھتے ہی کیوں ہیں
بدلتے ہیں یہاں لوگ موسموں کی طرح
واجد تیرے شہر کے لوگ ایسے کیوں ہیں